ایک دن میرا دل بہت بے چین ہوا… ہر چند کوشش کی کہ دل بہل جائے، پریشانی کا بوجھ اُترے اور بے چینی کم ہو، مگر وہ بڑھتی ہی گئی… بالآخر تنگ آکر باہر نکل گیا اور بے مقصد اِدھر اُدھر گھومنے لگا، اسی دوران ایک مسجد کے پاس سے گذراتو دیکھا کہ دروازہ کھلا ہے… فرض نمازوں میں سے کسی کا وقت نہیں تھا، میں بے ساختہ مسجد میں داخل ہوا کہ وضو کر کے دو چار رکعت نماز ادا کرتاہوں، ممکن ہے دل کو راحت ملے…
Saturday, May 23, 2015
Saturday, March 8, 2014
ایک فقیر کے داتا بننے کا قصہ - اشفاق احمد کے زاویہ سے اقتباس
مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے مرشد سائیں فضل شاہ صاحب گوجرانوالہ گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا-
ہم جب پورا دن گوجرانوالہ میں گزار کر واپس آ رہے تھے تو بازار میں ایک فقیر ملا، اس نے بابا جی سے کہا کچھ دے الله کے نام پر-
انھوں نے اس وقت ایک روپیہ بڑی دیر کی بات ہے، ایک روپیہ بہت ہوتا تھا-
وہ اس کو دیا وہ لے کر بڑا خوش ہوا، دعائیں دیں، اور بہت پسند کیا بابا جی کو-
Friday, March 7, 2014
ضمیر کی آواز
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک میں ایک تاجر رہتا تھا۔ وُہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی کی زندگی گزار رہا تھا۔ دونوں میاں، بیوی ایک دوسرے سے بڑھ کر بچوں کو پیار کرتے تھے۔ دن بھر کام کاج کرنے کے بعد جب وُہ گھر میں داخل ہوتا تو بچوں کو دیکھ کر اور اُن کے ساتھ لاڈ پیار کر کے اُس کی تھکن ختم ہو جاتی۔
Friday, February 28, 2014
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور کا ایک عجیب واقعہ
دو نوجوان حضرت عمر ؓکی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کھڑے ہوتے ہیں اور اس کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں :
’’اے امیر المومنین! یہ ہے وہ شخص جس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے‘‘
حضرت عمرؓ اُس شخص سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ واقعی تو نے ان نوجوانوں کے باپ کو قتل کیا ہے؟
اس شخص نے جواب دیا:’’امیر المو منینؓ ان کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہوا۔ میں نے منع کیا، وہ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے ماراجو سیدھا اس کے سر میں لگا۔ وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔‘‘
Friday, August 9, 2013
یہودی فلسفہءِ اعتماد۔۔۔ پیا رنگ کالا از بابامحمد یحییٰ خان سے ایک اقتباس
حکایت
یوں ہے کہ ایک بوڑھا کاروباری یہودی جب اپنی لاعلاج علالت کی وجہ سے سر
پڑی کاروباری ذمہ داریاں پوری طرح نبھانے سے قاصر ہو گیا تو اس نے اپنے
نابالغ فرزند کو اپنی جگہ تفویض کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن ایک خدشہ اسے رہ
رہ کر پریشان اور فکرمند کر رہا تھا کہ بچہ ابھی کچا اور کاروباری معاملات
کی پیرا پھیری سے ناواقف ہے۔ چونکہ جلد سے جلد بیٹے کو اپنی جگہ پہ بٹھانا
اس کی مجبوری اور ضرورت بن چکا تھا، اس لئے خرانٹ بڈھے نے فوری طور پہ اسے
وہی ازلی سبق پڑھانے کا سوچ لیا جو کبھی اس کے باپ نے اسے پڑھایا تھا اور
جس کے نتیجہ میں ابھی تک اس کی کمر میں ریڑھ کا مہرہ اپنی جگہ سے کھسکا ہوا
تھا۔
Sunday, August 4, 2013
بابا اشفاق احمد کا ایک واقعہ
اشفاق احمد صاحب ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ۔۔۔
ایک دفعہ لندن کے کسی پارک میں اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ تشریف فرما تھے
کہ دیکھتے ہیں چند لوگ آئے ۔۔۔ سفید پگڑی باندھے ہوئے ۔۔ کوئی عصر کا وقت
ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔تو انہوں نے اسی پارک میں جماعت کرائی اور عصر کی نماز
پڑھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک برٹش لڑکی انہیں ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔
ایک دفعہ لندن کے کسی پارک میں اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ تشریف فرما تھے
کہ دیکھتے ہیں چند لوگ آئے ۔۔۔ سفید پگڑی باندھے ہوئے ۔۔ کوئی عصر کا وقت
ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔تو انہوں نے اسی پارک میں جماعت کرائی اور عصر کی نماز
پڑھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک برٹش لڑکی انہیں ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔
Sunday, June 30, 2013
Thursday, June 27, 2013
افسانچہ، دل نامچہ - عربی سے ترجمہ شدہ
آج جب میں کالج سے لوٹی تو کیا دیکھتی ہوں کہ ہمارے گھر کے سامنے ایک نوجوان اپنی گاڑی میں بیٹھا ہے , جیسے کسی کا انتظار کر رہا ہو۔ ۔ ۔
پھر تو جیسے معمول بن گیا اور میں روز واپسی پر اسے اسی طرح گاڑی میں بیٹھے دیکھتی۔ ۔ ۔ لیکن نوجوان بہت با ادب لگ رہا تھا ۔ ۔ ۔ وہ زیادہ تر اپنا سر نیچھے کیے ہوئے بیٹھا رہتا صرف ایک لمحے کے لیے دیکھتا جب میں اس کے پاس سے گزر کر گھر میں داخل ہوتی ۔ ۔ ۔ لیکن وہ ہے کون؟ اور چاہتا کیا ہے؟
Sunday, June 16, 2013
Subscribe to:
Posts (Atom)
loading..