علامہ اقبال سنجیدہ اور متین ہونے کے باوجود بڑے بذلہ سنج اور خوش طبع تھے۔ گفتگو خواہ کسی قسم کی ہو، مزاح کا پہلو ضرور ڈھونڈ لیتے۔ مہذب و شائستہ لطائف کی قدر کرتے۔ خود بھی لطائف بنا کر دوست احباب کو ہنساتے رہتے، بعض اوقات لطائف کے ذریعے اہم مسائل بھی حل کر دیتے تھے۔
ایک ہی تو ہے
ایک مرتبہ علامہ اقبال بیمار پڑے۔ معالج نے آم کھانے سے منع کر دیا۔ بہت مضطرب ہوئے۔ کہنے لگے ’’مرنا تو برحق ہے آم نہ کھا کر مرنے سے آم کھا کر مر جانا بہتر ہے‘‘ اصرار بڑھا تو حکیم نابینا نے ہر روز ایک آم کھانے کی اجازت دے دی۔ مولانا عبدالمجید سالک لکھتے ہیں۔ ’’میں ایک دن عیادت کے لیے علامہ صاحب کی قیام گاہ پر حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کے سامنے ایک سیر کا بمبئی آم رکھا ہے اور آپ اسے کاٹنے کے لیے چھری اٹھا رہے ہیں۔ میں نے عرض کی ’’آپ نے پھر بد پرہیزی شروع کر دی‘‘۔ فرمانے لگے ’’حکیم نابینا نے دن میںایک آم کھانے کی اجازت دے دی ہے اور یہ آم بہر حال ایک ہی تو ہے۔‘‘
سکندری اور قلندری
ایک مرتبہ علامہ اقبال باہر بیٹھے تھے کہ ایک فقیر تہبندباندھے ہاتھ میں بڑی سی لٹھ لیے نمودار ہوا اور آتے ہی علامہ اقبال کی ٹانگیں دبانے لگا۔ علامہ اقبال کچھ دیر خاموشی سے پائوں دبواتے رہے پھر فرمایا ’’کیسے آنا ہوا؟‘‘ فقیر نے جواب دیا ’’میں اپنے پیر کے پاس گیا تھا۔ اُنھوں نے فرمایا ہے کہ ڈاکٹر اقبال کو تمھارے علاقے کا قلندر مقرر کیا گیا ہے۔‘‘ علامہ اقبال نے کہا ’’لیکن مجھے تو اس منصبِ قلندری کے عطا کیے جانے کی ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ملی۔‘‘ فقیر نے علامہ کی اس بات کو قلندری کے کوچے کی کوئی رمز جانا اور بیٹھا پائوں دباتا رہا۔ اتنے میں چوہدری محمد حسین تشریف لے آئے اور آتے ہی سر سکندر حیات سے متعلق کوئی بات کہنا چاہتے تھے کہ علامہ اقبال نے ٹوکا اور کہا ’’چوہدری صاحب اس سکندری کو رہنے دیجیے آج تو یہاں قلندری کی باتیں ہو رہی ہیں۔‘‘
انہیں سمجھائیں
جن دنوں علامہ اقبال کی بینائی کمزور ہو چکی تھی۔ نصراللہ خاں جو ۱۹۳۴ء تا ۱۹۳۸ء روزنامہ زمیندار سے وابستہ رہ چکے تھے، آپ کو سول اینڈ ملٹری گزٹ پڑھ کر سناتے تھے۔ نصر اللہ خاں کے ایک عزیز دہریہ ہو گئے تھے اور یہ اُنھیں لے کر علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے ’’میرے یہ عزیز حلقہ شیطان میں جا شامل ہوئے ہیں، آپ انہیں سمجھائیں۔ ہنس کر فرمانے لگے ’’جس کو اللہ نہ سمجھا سکا اسے میں کیا سمجھا سکوں گا۔‘‘
لطیف طنز
خان نیاز الدین خان جالندھر کی بستی دانش منداں کے رئیس اور علم و ادب سے شغف رکھنے والے بزرگوں میں سے تھے۔ ایک قدرِ مشترک دونوں اصحاب میں یہ بھی تھی کہ دونوں اعلیٰ نسل کے کبوتروں کے ناقد تھے۔ خان صاحب، علامہ اقبال کو جالندھر سے اعلیٰ قسم کے کبوتروں کے جوڑے بھیجتے تھے۔ اپنے بچوں سے محبت کرنے اور پرورش کرنے کا جذبہ جانوروں میں بہت ہوتا ہے لیکن ایک جوڑا اُنھوں نے ایسا بھیجا جو ان اوصاف سے بالکل عاری تھا۔ چنانچہ ایک خط میں خان صاحب کو تحریر فرماتے ہیں ’’آپ کے کبوتر بہت خوب ہیں مگر افسوس کہ زمانہ حال کی مغربی تہذیب سے بہت متاثر معلوم دیتے ہیں۔ مقصود اس سے یہ ہے کہ بچوں کی پرورش سے انتہائی بیزا ر ہیں۔‘‘
احتجاج
ایڈیٹر ’’رسالہ ہمایوں‘‘، میاں بشیر احمد بیرسٹر لکھتے ہیں : ’’۱۹۱۴ء میں، میں ولایت سے بیرسٹری کرنے کے بعد آیا اورلاہور چیف کورٹ میں پریکٹس کرنے لگا۔ بار روم میں علامہ اقبال کو اکثر دیکھنے کا موقع مل جاتا تھا۔ ایک دن میاں شاہ نوا ز بیرسٹر (ہمایوں صاحب کے تایا زاد بھائی) جو کہ علامہ کے خاص دوستوں میں سے تھے بار روم میں اکٹھے بیٹھے خوش گپیوں میں محو تھے۔ مجھے دیکھ کر فرمانے لگے ’’آئیے مولانا بشیر!‘‘ یہ سن کر مجھے شرم محسوس ہوئی۔ میں جب بھی علامہ اقبال سے ملتا تو وہ مسکرا کر مجھے مولانا بشیر کہہ کر پکارتے۔ آخر ایک دن مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے دبی زبان میں احتجاج کیا۔ ڈاکٹر صاحب میں کہاں کا مولانا ہوں۔ یہ سن کر مسکرائے اور فرمانے لگے ’’واہ بھئی واہ! مولانا کوئی بری بات ہے اور کیا مولاناؤں کے سر پر سینگ ہوتے ہیں۔ آخر کچھ عربی جانتے ہی ہونا۔‘‘
افطاری کے لیے سامان
ماہِ رمضان میں ایک مرتبہ پروفیسر حمید احمد خاں، ڈاکٹر سعید اللہ صدر شعبہ فلسفہ اور پروفیسر عبد الواحد، علامہ اقبال کے دولت کدے پر گئے۔ کچھ دیر بعد مدیر انقلاب مولانا غلام رسول مہر اور مولانا عبدالمجید سالک بھی تشریف لے آئے۔ مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ افطار کا وقت ہو گیا۔ آپ نے گھٹنی بجا کر اپنے نوکر کو بلایا اور اس نے کہا ’’افطار کے لیے سنگترے، کھجوریں کچھ نمکین اور میٹھی چیزیں جو کچھ ہو سکے سب لے آؤ۔‘‘ سالک صاحب نے عرض کی ’’اُفوّہ! اتنا سامان منگوانے کی کیا ضرورت ہے، کھجوریں ہی کافی ہیں۔‘‘ علامہ اقبال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا’’سب کچھ کہہ کر ذرا رعب تو جما دیں۔ کچھ نہ کچھ تو لائے گا۔‘‘
خواہش
آخری دنوں میں علامہ اقبال کی صحت بڑی حد تک گر چکی تھی۔ بوقتِ شب دَمے کے دورے بھی پڑنے لگے تھے۔ ضُعفِ قلب کے ساتھ جگر بھی بڑھ گیا تھا۔ معالجوں نے آپ کو تُرش اشیاء اور چاول وغیرہ کھانے سے منع کر دیا تھا۔ علامہ اقبال کو پلاؤ اور کباب بہت پسند تھے۔ آپ اُنھیں اسلامی غذا کہا کرتے۔ ایک دن حکیم محمد حسن قرشی سے فرمانے لگے ’’میری دلی خواہش ہے کہ ایک روز میرے ہاں آپ کی دعوت ہو۔ آپ میرے سامنے بیٹھ کر پلاؤ کھائیں تا کہ اگر میں پلاؤ کھا نہیں سکتا تو کم از کم کھاتے ہوئے دیکھ لوں۔
بشکریہ اردو ڈائجسٹ
No comments:
Post a Comment