بوڑھے بوبک نے بیٹے کو اوپر کوٹھے پہ چڑھا دیا اور خود نیچے
صحن میں کھڑا ہو گیا۔ اس نے بیٹے کو بڑی رسان سے حکم دیا کہ وہ نیچے
پھلانگ جائے، جونہی وہ نیچے آ رہا ہوگا تو وہ اسے اچک کر سنبھال لے گا۔
فرمانبردار بیٹا، باپ کی یہ عجیب سی بات، خواہش اور حکم سن کر بڑا پریشان
ہوا۔ اس کی کچی عقل ابھی باپ کی پکی بات کو سمجھنے سے عاجز تھی، آخر اس نے
اپنے مہربان باپ سے اس ڈرامے کی وجہ اور حقیقت پوچھ ہی لی۔ تجربہ کار باپ
نے بڑے محبت اور شفقت سے کہا کہ جان پدر! میں اب ناکارہ اور بوڑھا ہو گیا
ہوں، تم میری اکلوتی اولاد اور میری ہر چیز کے بلا شرکت غیرے وارث ہو لہٰذا
آج میں تمہیں ایک سبق دینا چاہتا ہوں جو تمہاری آئندہ تمام زندگی اور
کاروباری معاملات میں کام آئے گا۔ اب میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ بلا کسی
تردد و خوف، آنکھیں بند کرکے نیچے صحن میں چھلانگ لگا دو۔۔۔۔
بچہ
کبھی بلندی، کبھی صحن اور کبھی باپ کو دیکھ کر ہلکان ہو رہا تھا۔ کہ کیا
کرے اور کیا نہ کرے؟ ڈرتے ڈرتے پھر زبان کھولی اور اپنا خدشہ خوف بیان کیا
کہ اتنی بلندی سے چھلانگ لگانے کے لئے میرے پاس حوصلہ نہیں، نیچے گرنے سے
میرے ہاتھ پاؤں ٹوٹ سکتے ہیں یا آپ سے مجھے سنبھالنے میں کوتاہی ہو سکتی
ہے۔ آخر آپ مجھے اور خود کو ایسی آزمائش میں کیوں ڈالنا چاہتے
ہیں؟۔۔۔۔۔گھاگ باپ بڑی مکاری سے سمجھانے لگا کہ بیٹا! یہ سب کچھ جو ہمارے
اردگرد بکھرا ہوا ہے، اک کارخانہء آزمائش ہی تو ہے۔ ہمارے پیغمبروں، نبیوں
اور ان کی اولادوں پہ بھی آزمائشیں ڈالی گئیں تاکہ وہ دانش، دبدبہ اور
دلگیری و درماندگی کا درماں حاصل کر سکیں، آزمائش ہمارے اسلاف کبار کی
سنتیں اور صفتیں ہیں لہٰذا میرے جگر گوشے! تو بھی آزمائش پہ پورا اتر اور
اس سے حاصل ہونے والی نصیحت کو مضبوطی سے پکڑ۔ تو زیتون کے پکے ہوئے پھل کی
مانند نیچے اتر آ، تیرا مشفق و مستعد باپ تجھے اپنے پھیلے ہوئے بازوؤں میں
بھر لے گا، بھلا باپ سے زیادہ دنیا میں قابل اعتماد ہستی اور کون ہو سکتی
ہے؟ شاباش! دل پکا اور مضبوط کر۔ اپنے مہربان باپ پہ بھروسہ کرتے ہوئے
چھلانگ لگا دے۔۔۔۔
باپ کی بریفنگ سے بیٹے کا دل و دماغ سن ہو چکا تھا۔
زبردستی آنکھیں بند کیں، دانت بھینچے اور جی کڑا کرکے نیچے چھلانگ لگا دی۔
عین اسی لمحہ بوڑھا اپنی جگہ سے دو قدم پیچھے ہٹ گیا اور لڑکا پتھروں کے
فرش پہ گر کر اپنے گڈے گوٹے نکلوا بیٹھا۔ جب وہ دو ماہ کے لئے بستر پہ پڑ
گیا تو بوڑھے غمگین باپ نے جی جان سے اپنے اکلوتے، جان سے پیارے بیٹے کی
تیمارداری کی، کئی رات دن جاگتی آنکھوں میں نکال دئیے، روپیہ پیسہ پانی کی
مانند بہا دیا۔ بیٹا قدرے تندرست ہوا تو اسے بتایا کہ یہی تمہارے لئے سبق
ہے کہ سگے باپ پہ بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا لہٰذا زندگی ہو یا بندگی،
پیار یا بیوپار، دوستی، رشتہ داری، سیاست یا حکومت، کبھی بھی کسی پہ اعتماد
نہ کرنا۔۔۔۔"
No comments:
Post a Comment