پنڈ کی کی اس مسجد میں نماز مغرب ادا کرنے کے بعد اجنبی مسافر نے پیش امام صاحب سے کہا کہ میں مسافر ہوں اگے کا سفر صبح کروں گا اگر آپ کو اعتراض نہ ھو تو رات مسجد میں قیام کر لوں .
مولوی صاحب نے کچھ ضروری پوچھ گچھ کے بعد شب بسری کی اجازت دے دی . گاؤں کے چوہدری نے مسافر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میں آپ کے لئے کھانا بھجواتا ہوں. مسافر نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے جناب میں کھانا آپ کے گھر کا ہی کھاؤں گا لیکن یہ یاد رہے کہ میں صرف مرغے کے سالن سے روٹی کھاتا ہوں. مسافر کی بات سن کر تمام نمازی دلچسپی سے اسے دیکھنے لگے چوہدری کو اس کی بات پسند نہ چوہدری ناراض سے لہجے میں بولا بھائی پروھنے جیسی روکھی سوکھی گھر میں پکی ھوگی وہی تم کو کھانی ھوگی. اس وقت تمہارے لئے ہم مرغی کا سالن کہاں سے تیار کروائیں ؟ اجنبی بولا چوہدری صاحب آپ پریشان نہ ہوں اور نہ ہی میری بات کا غصہ کریں گھر جائیں آپ کے گھر میں میرے لئے مرغی کا سالن ہی آپ کو تیار ملے گا . چوہدری اس مسافر کی کم عقلی اور ضد پر دل ہی دل میں افسوس کرتا ہوا گھر چلا گیا. نمازی مسافر کی اس پشین گوئی کو دیکھنے کیلئے مسجد میں ہی رک گئے کچھ ہی دیر بعد چوہدری اپنے نوکر کے ساتھ مسجد میں واپس آ گیا. نوکر نے کپڑے سے ڈھکا ہوا ایک تھال اٹھا رکھا تھا چوہدری کے چہرے پر الجھن کے گہرے سائے تھے نوکر نے تھال مسافر کے سامنے رکھ دیا مسافر نے تھال پر سے کپڑا اتار کر ایک طرف رکھا ایک بڑی سی قاب میں مرغی کا سالن بھرا ہوا تھا اس نے بسم اللہ پڑھی اور کھانے پر ہاتھ صاف کرنے لگا تمام نمازی حیرت کی تصویر بنے اس کو مرغی کے سالن سے روٹی کھاتے دیکھتے رہے . کھانا کھانے کے بعد مولوی صاحب نے اس سے پوچھا او اللہ کے بندے یہ کیا ماجرا ہے ؟ مسافر نے کہا کوئی خاص بات نہیں کئی سال پہلے کی بات ہے میرے گھر کے حالات بہت خراب تھے ایک دن گھر والی سے کہا کہ بہت عرصہ ہوگیا گوشت نہیں کھایا کاش ایسا ھو کہ مرغی کا گوشت کھانے کو ملے . بیوی نے کہا ایسی خواہش کا کیا فائدہ جو پوری نہ ہوسکے ؟ گھر میں جو دال سبزی مل رہی ہے وہ ہی غنیمت سمجھو . میرے دل میں ایک عجیب سی بات آئی میں نے اپنی بیوی سے کہا کرماں والئے سن لے میری بات. اگر میرا رب کہیں ہے اور اس نے رزق کا وعدہ کر رکھا ہے تو میں آج کے بعد صرف مرغی سے ہی روٹی کھاؤں گا ورنہ بھوکا ہی رہوں گا. بیوی مذاق اڑانے لگی لیکن میں نے دل میں یہی ٹھان لی . اب میں بڑے صبر سے مرغی کے سالن کا انتظار کرنے لگا حالات ایسے نہیں تھے کہ خرید پاتا . دن گذرنے لگے اللہ میرے ارادے کو آزمانے لگا ایک ہفتہ گزر گیا میں چارپائی سے لگ کر رہ گیا آٹھویں دن ہمسائے کا ایک لڑکا مرغی کے سالن کا بڑا سا برتن بھر کر لایا ہمسائے کے کسی رشتہ دار کی شادی تھی انہوں نے اس کے گھر بہت زیادہ سالن بھیج دیا تھا جس کے خراب ہونے کے ڈر سے میرے ہاں بھیج دیا گیا تھا. میں نے سمجھ لیا یہ میری فرمائش تھی جو میرے رب نے قبول کر لی تھی میں نے اور میرے اھل خانہ نے پیٹ بھر کر کھایا اگلے روز میرا کام کا سلسلہ چل نکلا کام اتنا اچھا ہوگیا کہ میرے گھر میں روزانہ مرغی کا سالن پکانے کی گنجائش نکلنے لگی . اس دن کے بعد سے ایسا بندوبست ہوگیا کہ جہاں بھی جاتا ہوں کھانے کے وقت پر اللہ خود میری فرمائش پوری ہونے کا انتظام کر دیتا ہے . مسافر نے اپنی بات ختم کرنے کے بعد چوہدری سے پوچھا چوہدری صاحب آپ بتائیں آپ کے گھر میں میری فرمائش کا اہتمام کیسے ہوا؟ . چوہدری نے کہا میرے بھائی کا بیٹا کئی دن سے بیمار تھا اس نے منت مانی تھی کہ اگر میرا بیٹا تندرست ہوگیا تو کسی مسافر کو مرغی کے سالن سے کھانا کھلاؤں گا . میں گھر میں گیا تو میرا بھائی میرے گھر میں یہی پتہ کرنے آیا ہوا تھا کہ میرے ہاں کوئی مسافر تو قیام پذیر نہیں . تب میرے زھن میں اسی اجنبی مسافر کا خیال آیا حالانکہ میرے اپنے گھر میں سبزی پکی ہوئی تھی .
مولوی صاحب نے کچھ ضروری پوچھ گچھ کے بعد شب بسری کی اجازت دے دی . گاؤں کے چوہدری نے مسافر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میں آپ کے لئے کھانا بھجواتا ہوں. مسافر نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے جناب میں کھانا آپ کے گھر کا ہی کھاؤں گا لیکن یہ یاد رہے کہ میں صرف مرغے کے سالن سے روٹی کھاتا ہوں. مسافر کی بات سن کر تمام نمازی دلچسپی سے اسے دیکھنے لگے چوہدری کو اس کی بات پسند نہ چوہدری ناراض سے لہجے میں بولا بھائی پروھنے جیسی روکھی سوکھی گھر میں پکی ھوگی وہی تم کو کھانی ھوگی. اس وقت تمہارے لئے ہم مرغی کا سالن کہاں سے تیار کروائیں ؟ اجنبی بولا چوہدری صاحب آپ پریشان نہ ہوں اور نہ ہی میری بات کا غصہ کریں گھر جائیں آپ کے گھر میں میرے لئے مرغی کا سالن ہی آپ کو تیار ملے گا . چوہدری اس مسافر کی کم عقلی اور ضد پر دل ہی دل میں افسوس کرتا ہوا گھر چلا گیا. نمازی مسافر کی اس پشین گوئی کو دیکھنے کیلئے مسجد میں ہی رک گئے کچھ ہی دیر بعد چوہدری اپنے نوکر کے ساتھ مسجد میں واپس آ گیا. نوکر نے کپڑے سے ڈھکا ہوا ایک تھال اٹھا رکھا تھا چوہدری کے چہرے پر الجھن کے گہرے سائے تھے نوکر نے تھال مسافر کے سامنے رکھ دیا مسافر نے تھال پر سے کپڑا اتار کر ایک طرف رکھا ایک بڑی سی قاب میں مرغی کا سالن بھرا ہوا تھا اس نے بسم اللہ پڑھی اور کھانے پر ہاتھ صاف کرنے لگا تمام نمازی حیرت کی تصویر بنے اس کو مرغی کے سالن سے روٹی کھاتے دیکھتے رہے . کھانا کھانے کے بعد مولوی صاحب نے اس سے پوچھا او اللہ کے بندے یہ کیا ماجرا ہے ؟ مسافر نے کہا کوئی خاص بات نہیں کئی سال پہلے کی بات ہے میرے گھر کے حالات بہت خراب تھے ایک دن گھر والی سے کہا کہ بہت عرصہ ہوگیا گوشت نہیں کھایا کاش ایسا ھو کہ مرغی کا گوشت کھانے کو ملے . بیوی نے کہا ایسی خواہش کا کیا فائدہ جو پوری نہ ہوسکے ؟ گھر میں جو دال سبزی مل رہی ہے وہ ہی غنیمت سمجھو . میرے دل میں ایک عجیب سی بات آئی میں نے اپنی بیوی سے کہا کرماں والئے سن لے میری بات. اگر میرا رب کہیں ہے اور اس نے رزق کا وعدہ کر رکھا ہے تو میں آج کے بعد صرف مرغی سے ہی روٹی کھاؤں گا ورنہ بھوکا ہی رہوں گا. بیوی مذاق اڑانے لگی لیکن میں نے دل میں یہی ٹھان لی . اب میں بڑے صبر سے مرغی کے سالن کا انتظار کرنے لگا حالات ایسے نہیں تھے کہ خرید پاتا . دن گذرنے لگے اللہ میرے ارادے کو آزمانے لگا ایک ہفتہ گزر گیا میں چارپائی سے لگ کر رہ گیا آٹھویں دن ہمسائے کا ایک لڑکا مرغی کے سالن کا بڑا سا برتن بھر کر لایا ہمسائے کے کسی رشتہ دار کی شادی تھی انہوں نے اس کے گھر بہت زیادہ سالن بھیج دیا تھا جس کے خراب ہونے کے ڈر سے میرے ہاں بھیج دیا گیا تھا. میں نے سمجھ لیا یہ میری فرمائش تھی جو میرے رب نے قبول کر لی تھی میں نے اور میرے اھل خانہ نے پیٹ بھر کر کھایا اگلے روز میرا کام کا سلسلہ چل نکلا کام اتنا اچھا ہوگیا کہ میرے گھر میں روزانہ مرغی کا سالن پکانے کی گنجائش نکلنے لگی . اس دن کے بعد سے ایسا بندوبست ہوگیا کہ جہاں بھی جاتا ہوں کھانے کے وقت پر اللہ خود میری فرمائش پوری ہونے کا انتظام کر دیتا ہے . مسافر نے اپنی بات ختم کرنے کے بعد چوہدری سے پوچھا چوہدری صاحب آپ بتائیں آپ کے گھر میں میری فرمائش کا اہتمام کیسے ہوا؟ . چوہدری نے کہا میرے بھائی کا بیٹا کئی دن سے بیمار تھا اس نے منت مانی تھی کہ اگر میرا بیٹا تندرست ہوگیا تو کسی مسافر کو مرغی کے سالن سے کھانا کھلاؤں گا . میں گھر میں گیا تو میرا بھائی میرے گھر میں یہی پتہ کرنے آیا ہوا تھا کہ میرے ہاں کوئی مسافر تو قیام پذیر نہیں . تب میرے زھن میں اسی اجنبی مسافر کا خیال آیا حالانکہ میرے اپنے گھر میں سبزی پکی ہوئی تھی .
کاش ہمارا ایمان بھی باقی تمام مخلوق کے جیسا پختہ ہوتا اور خود بخود ملنے والے رزق کے پیچھے ہلکان ہونے کی بجائے دنیا میں آنے والے اپنے اصل مقصد کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔
بشکریہ حق قلندر
No comments:
Post a Comment