Friday, June 14, 2013

سچی کہانیوں کا مقابلہ




ایک بار کی بات ہے، ایک گائوں میں چار نوجوان رہتے تھے جنہیں ناقابلِ یقین من گھڑت کہانیاں سنانے میں مہارت حاصل تھی۔ وہ آپس میں گہرے دوست تھے۔ وہ ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور ہر کہیں ساتھ ساتھ ہی جاتے تھے۔ ایک موقع پر جب وہ گائوں کی چوپال میں تھے، ان کی ملاقات ایک ایسے مسافر سے ہوئی جو بہت ہی عمدہ قسم کی پوشاک پہنے ہوئے تھا۔ وہ آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے ’’یہ کوئی امیر آدمی معلوم ہوتا ہے۔ آؤ، اسے بے وقوف بنا کر اس کے کپڑے ہتھیالئے جائیں۔‘‘
وہ اس کے پاس پہنچے اور لگے بتانے۔ ایک نے گاؤں کے بارے میں بتایا، دوسرے نے جنگل اور شکار اور چوتھے نے دو پہاڑوں کے بارے میں بتایا جنہیں وہ سر کرچکے تھے۔ ان میں سے ایک بولا۔ ’’ہم ایک شرط لگاتے ہیں۔ ہم سب اپنی زندگی کا سب سے عجیب و غریب واقعہ بیان کریں، اور یہ بات دھیان میں رکھیں کہ ہم میں سے جو بھی واقعہ کی سچائی پر شک کرے گا اسے کہانی سنانے والے کا غلام بننا پڑے گا۔‘‘ مسافر بہت دلچسپی سے ان کی باتیں سنتا رہا اور پھر اس نے ان کی شرط منظور کرلی۔ چاروں دوستوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارہ کیا، جیسے کہہ رہے ہوں۔ ’’بے وقوف مسافر کو کتنی آسانی سے ہم نے اپنے جال میں پھانس لیا ہے۔‘‘ وہ اس بات کا ذرا بھی اندازہ نہ لگا سکے کہ مسافر خود ایک ماہر کہانی سنانے والا تھا۔ اور اگر ایسا تھا تو۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چاہے جتنی بھی ناقابل یقین کہانی کیوں نہ سنائے وہ اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے تھے کہ ہمیں اس کا یقین ہے برخلاف اس کے اپنے بارے میں ان کا خیال یہ تھا کہ ان کی کہانیاں اس حد تک ناقابل یقین اور من گھڑت ہیں کہ مسافر احتجاج کیے بغیر نہیں رہے گا اور پھر وہ لوگ اس بات کا اعلان کردیں گے کہ وہ شرط ہار گیا ہے اور اس کے کپڑے لے لیں گے۔ کیوں کہ ان کا ارادہ اسے غلام بنانے کا نہیں تھا۔ انہیں اپنی عقل پر پورا بھروسہ تھا اس لئے وہ بڑے یقین کے ساتھ گئے اور گائوں کے مکھیا کو بلا لائے کہ وہ اس عقل مندی اور ہوشیاری کے مقابلے میں ان کا منصف بنے۔

 پہلے آدمی نے اپنا واقعہ یوں بیان کرنا شروع کیا: ’’جب میں بس پیدا ہونے والا ہی تھا کہ ایک بار میری ماں نے میرے باپ سے فرمائش کی کہ وہ گھر کے سامنے لگے بیر کے درخت سے کچھ بیر توڑ لائیں۔ میرے باپ نے جواب دیا کہ پیڑ بہت اونچا ہے۔ اس پر چڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔ تب ماں نے میرے بھائیوں سے بیر لانے کو کہا۔ لیکن انہوں نے بھی انکار کردیا۔ اپنی ماں کو مایوس اور اداس دیکھ کر مجھ سے برداشت نہ ہوا اس لئے میں چپکے سے باہر آیا اور پیڑ پر چڑھ گیا۔ میں نے بیر توڑ کر اپنی واسکٹ میں رکھے اور جب سب کی نظریں اوٹ ہوئیں تو بیر باورچی خانے کی میز پررکھ دیئے۔ میری ماں بیروں کو دیکھ کر پھولے نہ سمائیں اور خوب جی بھر کر جتنے بیر کھا سکتی تھی کھا لئے۔ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر بیر آئے کہاں سے؟ جب سب لوگ کھا چکے تب بھی اتنے بیر بچے رہے کہ میری ماں نے ڈلیا بھر بھر کر سارے پڑوسیوں میں بانٹے اور باقی بچے ہوئے بیر دروازے پر ڈھیر کردیئے۔‘‘ ان نوجوانوں نے مسافر کا ردعمل جاننے کے لیے اس کی طرف دیکھا لیکن اس نے یقین میں سر ہلا دیا اور پھر اسی طرح باقی لوگوں نے بھی کیا۔

اب دوسرے دوست کی باری آئی۔ ’’جب میں ایک ہفتہ کا تھا تو گھومنے کی غرض سے جنگل گیا۔ جہاں میں نے ایک بڑا املی کا درخت دیکھا جو پکی پکی املیوں سے لدا پڑا تھا۔ جب مجھے بھوک لگی تو میں پیڑ پر چڑھا اور خوب املیاں کھائیں۔ میں اتنی املیاں کھا گیا کہ پیڑ سے نیچے اترنے کے قابل نہ رہا۔ اس لئے مجھے گائوں جانا پڑا۔ وہاں سے سیڑھی لاکر اسے پیڑ سے لگایا تب کہیں جاکر اس کی مدد سے نیچے آسکا۔ ان دوستوں نے پھر پرامید نظروں سے مسافر کو دیکھا کہ اب ایسی بے سر پیر کی کہانی پر تو وہ یقین نہ کرے گا لیکن اس نے یہی ظاہر کیا کہ اسے اس کی کہانی پر یقین ہے۔ نوجوانوں نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔

اب تیسرا آدمی آگے بڑھا کہ اپنا واقعہ بیان کرے: ’’مجھے یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب میری عمر ان لوگوں کے مقابلے میں کافی زیادہ تھی۔ میں تقریباً ایک سال کا تھا ایک بار میں ایک خرگوش کا پیچھا کرتے کرتے ایک جھاڑی میں پہنچ گیا۔ لیکن اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ جسے میں خرگوش سمجھا تھا وہ اصلیت میں ایک شیر تھا۔ شیر نے مجھے دیکھ کر اپنا بڑا سا منہ کھول دیا میں نے اس سے کہا کہ تمہارا مجھے مار کر کھالینا ٹھیک نہیں۔ کیوں کہ میں تو خرگوش کا پیچھا کررہا تھا شیر کا نہیں۔ یہ سن کر شیر نے اپنا منہ اور زیادہ کھول دیا تاکہ مجھے کھا جائے۔ یہ دیکھ کر میں بلاتاخیر اس پر اچک کر چڑھ گیا اور اس کا اوپری جبڑا زور سے پکڑ لیا پھر میں نے اتنی زور سے جبڑے کو جھٹکا دیا کہ جبڑے کے دو ٹکڑے ہوگئے اور شیر مرگیا۔‘‘ نوجوان کو یقین تھا کہ اس کی کہانی سے وہ آدمی ضرور بھڑک اٹھے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس نے تو اس طرح کہانی پر یقین کرتے ہوئے سر ہلا دیا جیسے اسے اس میں ذرا بھی شک نہ ہو۔ ہار کر شکایت بھری آنکھوں سے دیکھتے ہوئے دوسروں نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی۔

اب چوتھے دوست نے اپنی داستان شروع کی: ’’پچھلے سال کی بات ہے میں ایک ناؤ لے کر شکار کے لئے نکلا۔سمندر میں اور بھی مچھیرے تھے لیکن پورا دن گزر گیا اور کوئی بھی ایک مچھلی تک نہ پکڑ سکا۔ میں الجھن میں پڑ گیا کہ اتنے بڑے سمندر میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس کا شکار کیا جاسکے؟ اور یہی بھید جاننے کے لیے میں ناؤ سے سمندر میں کود پڑا اور پانی میں بھرپور طاقت سے غوطہ لگایا۔ میں اندر ہی اندر تیرتا رہا، تیرتا رہا، یہاں تک کہ تین دن گزر گئے اور تب میں نے سمندر کی سطح کو چھولیا۔ ’’وہاں پہنچ کر تو میں سخت پریشان اور دہشت زدہ ہوا۔ میں نے ایک پہاڑ جیسی بڑی مچھلی دیکھی جو ساری مچھلیوں کو نگلے جارہی تھی۔ اس سے پہلے کہ اسکی نظر مجھ پر پڑے میں بڑھا اور ایک زور دار گھونسا اس کو رسید کیا۔ مچھلی مرگئی میں بھوکا تو تھا ہی میں نے آگ جلائی تاکہ اسے بھون سکوں۔ جب مچھلی بھن کر تیار ہوگئی تو میں اکیلے ہی ساری کی ساری مچھلی کھا گیا۔ پھر میں تیر کر اوپر آگیا اور سب دوستوں کو اس لمبی چوڑی مچھلی سے اپنی مڈبھیڑ کی کہانی سنائی۔‘‘ اس عجیب و غریب داستان کو سن کر مسافر نے تعریف کے انداز میں سر کو جنبش دی۔ ان تینوں نے بھی اپنے سر ہلا دیئے۔

آخر میں مسافر نے اپنی کہانی سنانے کے لئے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور یوں گویا ہوا:۔ ’’کچھ سال پہلے کی بات ہے میرا کپاس کا ایک کھیت تھا اس میں سرخی مائل رنگ کا ایک بہت بڑا درخت تھا۔ کافی دنوں تک وہ یوں ہی لنڈ منڈ کھڑا رہا نہ اس میں شاخیں نکلیں نہ پتے نکلے۔ کافی عرصہ کے بعد اس میں چار شاخیں پھوٹیں۔ ہر شاخ پر ایک ایک کلی کھلی جو بعد میں ایک بڑے پھل کی شکل میں تبدیل ہوگئی۔ میں نے یہ پھل توڑ لئے۔ لیکن جب میں نے ان پھلوں کو کاٹا تو ہر ایک میں سے ایک نوجوان باہر کودا۔ کیوں کہ یہ نوجوان اس درخت کی پیداوار تھے جو میرے کھیت میں اگا تھا اس لئے یہ لوگ قانونی طور پر میرے غلام ہی تو ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ آپ سب میری بات سے اتفاق کریں گے؟‘‘ سننے والوں نے اس کی بات کو منظور کرلیا اور کہا کہ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔۔۔اب پھر مسافر نے داستان شروع کی۔ ’’تو پھر میں نے انہیں کھیت پرکام میں لگا دیا۔ لیکن میں نے جلد ہی یہ بات محسوس کرلی کہ وہ بہت کاہل ہیں اور اگرمیں دیکھ بھال نہ کروں تو یہ نوجوان بالکل کام نہیں کرتے۔ ایک بار تجارت کے سلسلے میں مجھے باہر جانا پڑا اور جب میں لوٹ کر آیاتو مجھے معلوم ہوا کہ وہ سب بھاگ نکلے ہیں۔ تب سے میں ہر کہیں انہیں تلاش کرتا پھرتا رہا ہوں۔ یہ میری خوش قسمتی ہی تو ہے آخر کار میں نے آپ لوگوں کو پا ہی لیا۔ جوانوں چلو اب میرے کھیت پر واپس چلو۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ تم میرے غلام ہو؟‘‘

 نوجوان ہکا بکا ہوکر ایک دوسرے کی طرف تاکنے لگے۔ آخر وہ مات کھا ہی گئے۔ مسافر نے انہیں اپنے جال میں پھانس لیا تھا اگر وہ کہتے ہیں کہ انہیں کہانی پر یقین ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ یہ بات بھی مان رہے ہیں کہ وہی اس کے بھاگے ہوئے غلام ہیں اور اگر وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس داستان پر یقین نہیں ہے تو شرط کے مطابق وہ مسافر کے غلام بن جائیں گے۔ وہ بے چارے کیا کہتے۔ وہ چپ چاپ شرم سے سرجھکائے بیٹھے رہے۔ مکھیا نے اعلان کیا کہ مسافر نے بازی جیت لی ہے۔ نوجوانوں کی پریشانی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مسافر نے کہا ’’اصل میں مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ اگر تم اپنے کپڑے میرے حوالے کردو تو میں تمہیں آزاد کردوں گا۔‘‘ چاروں نے اپنے کپڑے اتار کر دے دیئے اور مسافر نے انہیں قاعدے سے گٹھڑی میں باندھا اور پھر اپنے سفر پرروانہ ہوگیا۔

(’’ایشیائی لوک کہانیاں‘‘ترجمہ،عائشہ صدیقی، ناشر،نگارشات،لاہور)
بشکریہ روزنامہ دنیا مورخہ ۱۴ جون ۲۰۱۳ بروز جمعۃ المبارک

No comments:

Post a Comment