مجھے یاد ہے جب میں لندن میں تھا ، وہاں ساکر(فٹبال) کے دیوانہ وار مقابلے ہوا کرتے تھے ۔ تو ایک جادو قدم کھلاڑی نارمن تھا جس کے آگے نہ بال رکتا تھا نہ کوئی کھلاڑی ٹھہرتا تھا ۔
وہ جب بھی کھیلتا اس کا والد ضرور آ کر تماشائیوں میں بیٹھتا اور اپنے بیٹے کا کھیل دیکھتا اور بیٹا بھی اپنے باپ کو کھیل دکھانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتا اور پھر یوں ہوا کہ اس کا باپ فوت ہو گیا اور نارمن بجھ گیا ۔ اس کے کھیل میں وہ قوت اور تیزی نہ رہی ۔
ایک روز اس نے کہا کوچ ، باوجود اس کے کہ میرا باپ اس دنیا میں نہیں ہے ، میں اس کے لیئے کھیل کھیلنا چاہتا ہوں ، کوچ نے کہا ، بہت خوب ہم اس کے لیئے مخصوص کرسی خالی رکھیں گے ۔ بس پھر اس روز جو کھیل نارمن کھیلا اس کی مثال سوکر" کی دنیا میں کہیں نہیں ملتی ۔ پانچ ہزار تماشائیوں کی تالیوں کی گونج میں کھیل کا میدان لرزتا رہا ، گونجتا رہا ، پکارتا رہا ، نعرے مارتا رہا۔
گیم جیت کر جب نارمن ڈریسنگ روم میں گیا تو اس نے کوچ کو بتایا کہ آج کا کھیل میں نے اپنے باپ کے لیے کھیلا ۔ جب تک وہ زندہ رہا اس نے عمر بھر ایک مرتبہ بھی میرے کھیل کو مِس نہیں کیا،باقاعدگی سے آتا رہا اور میرا کھیل ملاحظہ کرتا رہا لیکن اس نے عمر بھر مجھے ایک مرتبہ بھی کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا،کیونکہ میرا والد اندھا تھا ۔ آج مجھے یقین ہے کہ جب وہ اس دنیا میں نہیں ہے ، اس نے میرا کھیل ضرور دیکھا ہوگا ۔
میرا خیال ہے ہم زندگی کی اسٹیج پر جو پرفارمنس دیتے ہیں ، اللہ اسے فرنٹ رو میں بیٹھ کر ملاحظہ فرماتا ہے ۔ جب ہم سے کوئی کمال سرزد ہوتا ہے تو وہ فرماتا ہے ، یہ ہے میرا بندہ جس پر شیطان کا اغوا ممکن نہیں ۔
اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 544
No comments:
Post a Comment