Friday, March 7, 2014

ضمیر کی آواز


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک میں ایک تاجر رہتا تھا۔ وُہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی کی زندگی گزار رہا تھا۔ دونوں میاں، بیوی ایک دوسرے سے بڑھ کر بچوں کو پیار کرتے تھے۔ دن بھر کام کاج کرنے کے بعد جب وُہ گھر میں داخل ہوتا تو بچوں کو دیکھ کر اور اُن کے ساتھ لاڈ پیار کر کے اُس کی تھکن ختم ہو جاتی۔

وُہ کپڑے کی تجارت کرتا تھا۔ فیکڑی سے کم داموں پر کپڑا خریدتا اور پھر سائیکل پر لاد کر وُہ گلی محلوں میں جا کر بیچ دیتا۔ وُہ اتنا کما لیتا تھا کہ گزر بسر اچھے طریقے سے ہو جاتی۔ پیسے کو جوڑ کر رکھنے کی عادت اُس کی تھی ہی نہیں۔ جب کبھی کمائی زیادہ ہو جاتی تو وُہ بچوں کے لیے کھلونے یا پھل، فروٹ لے آتا۔ اکثر اُس کی بیوی شکوہ کرتی کہ بچوں کو زیادہ لاڈ نہ کیا کرو اِن کی عادت بگڑ جائے گی لیکن وُہ جانتا تھا کہ وُہ ایسا کہہ کر صرف اُسے چھیڑتی ہے ورنہ تو وُہ تاجر کا اپنے بچوں کے ساتھ لاڈ، پیار دیکھ کر خوش ہوتی تھی۔

گھر کی اسی رونق کی وجہ سے اُن کا گھر محلے والوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ لوگ اُن کے گھر کی مثالیں دیتے تھے۔ اس کے علاوہ تاجر اپنی ایمانداری کی وجہ سے بھی بہت مشہور تھا۔ لوگ اُس کے پاس اپنی امانتیں رکھواتے اور کبھی بھی ایسا نہ ہوا کہ تاجر کا دل للچایا ہو۔ وُہ تمام امانتیں اُن کی اصل حالت میں لوٹاتا۔ کئی دفعہ لوگوں نے اُس کو آزمانے کے لیے اپنی امانت رکھوائی لیکن وُہ ہمیشہ اُن کی آزمائش پر پورا اُترا۔ اور اُس کے بعد لوگوں کی نظر میں اُس کی عزت اور بھی بڑھ گئی۔

ایک دِن تاجر صبح اٹھا تو بہت خوش تھا۔ اُس کی بیوی نے خوش ہونے کی وجہ پوچھی تو وُہ کچھ خاص جواب نہ دے سکا کیونکہ وُہ خود بھی اپنی خوشی کی وجہ نہ جانتا تھا۔ سائیکل کو اچھی طرح صاف کرنے کے بعد اُس نے بچوں کو پیار کیا پھر بیوی کو اپنا اور بچوں کا خیال رکھنے کا کہہ کر وُہ کام پر روانہ ہو گیا۔ چونکہ کپڑا سارا وُہ بیچ چکا تھا اِس لیے وُہ سیدھا فیکڑی گیا تاکہ وہاں سے کپڑا خرید سکے۔ تاجر کی یہ بھی خوبی تھی کہ وُہ ہمیشہ اچھے کپڑے کی تجارت کرتا۔ فیکڑی میں بھی ورکرز نے اُس کی خوشی کی وجہ پوچھی لیکن وُہ اُن کو بھی مطمئن نہ کر سکا۔ کپڑا خریدنے کے بعد اُس نے سائیکل پر لادا اور شہر میں بیچنے کے لیے روانہ ہو گیا۔

تاجر گلی، محلوں میں آواز لگا رہا تھا "کپڑا لے لو، اچھا اور نفیس کپڑا لے لو"۔ شہر کے لوگ تاجر کو اُس کی آواز سے ہی پہچان لیتے تھے۔ ایک گلی میں وُہ "کپڑا لے لو" کی صدا بلند کر رہا تھا کہ کسی عورت کی آواز اُس کے کان سے ٹکرائی۔ وُہ رُکا اور مُڑ کر دیکھا، ایک عورت دروازے میں کھڑی تھی۔ اُس نے سائیکل موڑا اور عورت کے گھر کے سامنے جا کر سائیکل کو سٹینڈ پر لگایا۔ بہت ادب سے سلام کرنے کے بعد اُس نے اپنے مخصوص انداز میں پوچھا "جی بہن میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں"۔
عورت نے کہا کہ "مجھے اچھی کوالٹی کا کپڑا دیکھاؤ"۔
تاجر نے کہا "بہن میرے پاس تو ہر کپڑا اعلیٰ نسل کا ہی ہوتا ہے، لیکن آپ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا؟ میں پچھلے کئی سالوں سے اِس محلے میں کپڑا بیچ رہا ہوں اور ہمیشہ اِس گھر پر تالا ہی لگے دیکھا ہے۔"
عورت تاجر کے معصوم لہجے پر تھوڑا مسکرائی اور بولی، "ہاں بھائی، ہم کچھ دن پہلے ہی اِس گھر میں آئے ہیں۔ میرے میاں کی اِس شہر میں نوکری لگی ہے اور یہ گھر اُن کے ماموں کا ہے جو خود کسی اور شہر میں رہتے ہیں اسی لیے یہ گھر بند پڑا تھا۔"
تاجر نے عورت کو اُس کے میاں کی نوکری کی مبارک باد دی اور اُسے کپڑا دکھانے لگا۔ عورت نے اُس میں سے ایک سوٹ پسند کیا۔ پھر اُس کے پیسے تاجر کو دیے۔
جب تاجر روانہ ہونے لگا تو عورت نے تاجر کو پکارا۔ "بھائی، میرے پاس کچھ مردانہ اور زنانہ پرانے کپڑے ہیں کیا اُن کے بدلے میں مجھے پیسے یا نئے کپڑے مل سکتے ہیں؟"
تاجر مسکرایا اور بولا، "بہن میں نئے کپڑے کا کاروبار کرتا ہوں لیکن کیونکہ آپ میری نئی گاہک ہو اِس لیے میں آپ کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کروں گا۔ اچھا بتائیں کتنے عدد جوڑے ہیں؟"
عورت بولی "جی چار عدد ہیں۔"
تاجر کچھ سوچ کر بولا "ٹھیک ہے بہن، میں اُن کے بدلے میں آپ کو ایک نیا سوٹ دیتا ہوں۔"
عورت بہت خوش ہوئی اور پھر تاجر سے چار عدد پُرانے کپڑوں کے جوڑوں کے بدلے میں ایک اعلیٰ قسم کا نیا سوٹ لے لیا۔

تاجر رات کو گھر لوٹا تو اُس کی بیوی کھانا پکا رہی تھی۔ اُس نے اپنے بچوں کے متعلق دریافت کیا تو اُس کی بیوی نے بتایا کہ دونوں سو رہے ہیں۔ نہا کر وُہ بیوی کے پاس ہی بیٹھ گیا اور پھر دِن بھر کی روداد بیوی کو سنائی۔ چار عدد پرانے کپڑوں کے جوڑوں کے متعلق اُس نے بیوی کو کہا کے اگر زنانہ کپڑے تم کو پسند آئیں تو پہن لینا ورنہ کیسی اور غریب کو دے دینا اُس کا بھلا ہو جائے گا اور مردانہ سوٹ وُہ خود پہن لے گا۔ تاجر کی بیوی تو ہمیشہ ہی اُس کی رضا میں راضی تھی سو مان گئی۔

اگلی صبح جب تاجر کام کے لیے روانہ ہو گیا تو اُس کی بیوی نے وُہ کپڑے نکالے جو وُہ کل لے کر آیا تھا۔ کپڑوں کا دیکھتے ہوئے اُسے مردانہ سوٹ کی قمیض بھاری محسوس ہوئی۔ جب اُس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو بہت سارے پیسے نکل آئے۔ اتنے سارے پیسے اکٹھے اُس نے کبھی بھی نہیں دیکھے تھے۔ کچھ دیر تو وُہ حیران زدہ پیسوں کو ہی دیکھتی رہی۔ پھر اُس نے پیسوں کو دوبارہ قمیض میں ہی ڈال کر بکسے میں بند کر کے تالا لگا دیا۔ اُس کا دل اب بھی تیز تیز دھڑک رہا تھا۔

رات کو تاجر جب گھر آیا تو وُہ سارے کام کاج چھوڑ کر اُسے لے کر کمرے میں آ گئی پھر کمرے کے دروازے کی کنڈی لگائی۔ تاجر حیرت زدہ اپنی بیوی کو دیکھ رہا تھا۔ تاجر نے بیوی سے اُس کے اتنے مختاط ہونے کی وجہ دریافت کی تو وُہ بولی۔ "صبر کرو، ابھی تم بھی اپنے ہوش کھو بیٹھو گے۔"
تاجر کی بیوی نے بکسے کا تالا کھولا اور اُس میں سے قمیض باہر نکالی۔ تاجر اب بھی کچھ سمجھ نہ پا رہا تھا۔ اُس کی بیوی نے جب قمیض میں سے پیسے باہر نکالے تو وُہ جہاں تھا وہی ساکت ہو گیا۔ وُہ ٹوٹی پھوٹی آواز میں بولا "یہ کہاں سے آئے؟"
اُس کی بیوی بولی "اِس قمیض میں سے نکلے ہیں جو تم کل لے کر آئے تھے۔"
تاجر نے اپنی بیوی کو کہا کہ "ان پیسوں کو اُسی قمیض میں ڈال دو میں کل اِن کو واپس کر آوں گا۔"
تاجر کی بیوی نے ایسا ہی کیا اور پیسوں کو قمیض میں ڈالا کر بکسے میں بند کر دیا۔

اگلی صبح تاجر وُہ کپڑے لے کر اُسی محلے میں چلا گیا جہاں سے اُس نے عورت سے کپڑے لیے تھے۔ تاجر نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو تھوڑی دیر بعد ایک آدمی باہر نکلا۔ تاجر سے اُس آدمی کو سلام کیا اور پھر اپنا تعارف کروایا۔ تاجر نے آدمی سے درخواست کی کہ اُسے اندر آنے کی اجارت دی جائے وُہ اُنکی امانت اُن کو لوٹانا چاہتا ہے۔ آدمی بولا "لیکن میں نے تو آپ کو کوئی امانت دی ہی نہیں تھی۔۔!"
تاجر نے عاجزی سے عرض کی کہ "مجھے اندر تو آنے دیں میں آپ کو سب کچھ بتاتا ہوں۔"
آدمی مان گیا اور تاجر کو لیے گھر کے اندر آ گیا۔ اندر آ کر آدمی نے تاجر کو بیٹھایا اور اتنے میں اُس کی بیوی بھی وہاں آ گئی۔ اُس نے تاجر کو پہچان لیا اور پھر اپنے میاں کو تاجر کے بارے میں بتایا کہ کیسے اُس نے چار عدد پرانے کپڑوں کے جوڑوں کے بدلے میں اُسے ایک عدد نیا سوٹ دیا تھا۔ اُس کے بعد دونوں میاں بیوی تاجر کی طرف متوجہ ہوئے۔ تاجرنے ساری روداد اُن کے گوش گزاری کہ کیسے اُس کی بیوی نے قمیض میں سے پیسے نکالے اور اب وُہ اُن کو لوٹانے آیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
دونوں میاں بیوی کو یقین نہ آیا۔ پھر تاجر نے قمیض میں سے پیسے نکال کر اُن کے سامنے رکھ دیے۔ اب وُہ دونوں ایک دفعہ پیسوں کو دیکھ رہے تھے اور ایک دفعہ تاجر کو کہ جو ایک بہت بڑی رقم اُن کو واپس لوٹا رہا تھا۔ آدمی مسکرایا اور تاجر سے بولا "یہ رقم اٹھا لو یہ اب تہماری ہے۔"
تاجر نے اُس رقم کو لینے سے انکار کر دیا۔ دونوں میاں بیوی نے اُسے سمجھایا کہ "دیکھو ہم تو اِن پیسوں سے بے خبر تھے۔ اگر تم یا تمہاری بیوی چاہتے تو یہ رقم اپنے پاس بھی رکھ سکتے تھے لیکن یہ تمہاری ایمانداری ہی ہے کہ جو تم یہ پیسے ہم کو لوٹا رہے ہو۔ اب ہم دونوں میاں بیوی اپنی خوشی سے تم کو یہ رقم دے رہے ہے اِس لیے ان پیسوں کو اپنے پاس رکھ لو۔ دونوں میاں بیوی کے سمجھانے پر تاجر مان گیا اور وُہ پیسے لے لیے۔"

دوستو! ایسی صورتحال سے آپ میں سے بھی اکثر لوگوں کا واسطہ پڑ سکتا ہے یا پڑا ہوگا۔ میں آپ سے صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ ایسے نازک موقعوں پر اپنے ضمیر کی آواز کو کبھی مدہم نہ ہونے دیجئے اور جو صحیح راہ ہے اُس پر چلتے ہوئے ایک کھرے مسلمان اور ایک اچھے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں۔ ہو سکتا ہے اللہ آپ کو آپکی توقع سے بڑھ کے عطا کر دے۔

No comments:

Post a Comment